ایک اور چراغ بجھ گیا

 

از قلم: مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری  

استاذ دارالعلوم دیوبند                 

 

مادرِعلمی دارالعلوم دیوبند کا ششماہی امتحان مکمل ہوچکا تھا، طلبہ کی اکثریت اپنے وطنوں اور دوسری جگہوں کے اسفار پر تھی، جمعہ کا مبارک دن تھا راقم السطور عادت کے مطابق تفریح کرکے لوٹ رہا تھا کہ رفیق محترم جناب مفتی محمدمزمل صاحب بدایونی زیدمجدہ استاذ دارالعلوم دیوبند نے خبر دی کہ حضرت الاستاذ حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی دامت برکاتہم بیمار ہیں اور ڈی․ کے․ جین ڈاکٹر کے یہاں داخل ہیں، لہٰذا دونوں نے عیادت کے لیے جانا طے کیا اور جناب مفتی فہیم الدین صاحب بجنوری زیدمجدہ استاذ دارالعلوم دیوبند کو بھی اطلاع دے کر بلایا اور فوراً حضرت الاستاذ دامت برکاتہم کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے، دیکھتے ہی محسوس ہوا کہ حالت تشویش ناک ہے، سانس میں اکھڑاپن اس قدر تھا کہ جیسے بڑی دشواری سے سانس جاری ہو، لیکن ڈاکٹر نے خون کی رپورٹیں دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ دیکھنے میں طبیعت جتنی خراب ہے رپورٹ ایسی نہیں ہے (یہ ہی قرآن وسنت کے خدام اور اللہ والوں کا معاملہ ہوتا ہے کہ ان کے اعضاء رئیسہ اس قدر قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کہ ظاہر بینوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا) خیر تینوں احباب واپس آگئے اور آنے کے پندرہ، بیس منٹ کے بعد ہی حضرت الاستاذ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ربیع الثانی کا چاند نظر آچکا تھا اور جمعہ کا دن ختم ہوچکا تھا؛ اس لیے حضرت الاستاذ کی وفات یکم ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ بروز ہفتہ میں ہوئی ہے۔

سوانحی خاکہ:

حضرت الاستاذ کا نام نامی اور اسم گرامی عبدالحق تھا، آپ ۱۹۲۸/ جگدیش پور ضلع اعظم گڈھ اترپردیش میں پیدا ہوئے۔

تعلیم وتربیت:

والد محترم کا سایہ بچپن ہی میں چھ سال کی عمر میں اٹھ گیا تھا، لہٰذا آپ کی کفالت جناب مولانا ابوالحسن محمدمسلم صاحب جونپوری رحمة اللہ علیہ نے فرمائی۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی، پھر مدرسہ بیت العلوم سرائے میراعظم گڈھ میں فارسی وعربی ابتدائی شرح وقایہ وغیرہ تک حاصل کی اس کے بعد متوسط تعلیم کے لیے دارالعلوم مئو میں داخلہ لیا اور ادب،اصول فقہ وغیرہ فنون کی مختلف کتابیں اور ہدایہ ومشکوٰة شریف کی تعلیم مکمل کرکے حضرت والا اعلیٰ تعلیم کے لیے ازہرہند دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے اور دورئہ حدیث شریف کی تعلیم اساطینِ علم وفن سے حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند میں پڑھی ہوئی کتابوں کے اساتذئہ کرام اور حاصل کردہ نمبرات کا نقشہ درج ذیل ہے:

(۱)بخاری شریف مکمل دونوں جلدیں:

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ (۱۸۷۹-۱۹۵۷/)                                            ۴۵

(۲)         ترمذی شریف جلد اوّل       //                 //                 //                          ۴۸

(۳)         ترمذی شریف جلد ثانی:

شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب قدس سرہ (۱۸۸۲-۱۹۵۴/)    

(۴)         ابوداؤد شریف:              //                 //                 //                          ۴۵

(۵)         مسلم شریف مکمل دونوں جلدیں:

حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی صاحب قدس سرہ (۱۸۸۶-۱۹۶۷/)                                        ۴۴

(۶)         شمائل ترمذی شریف:                  //                 //                 //                 ۴۶

(۷)         نسائی شریف:

 حضرت مولانا فخرالحسن صاحب مرادآبادی قدس سرہ (۱۹۰۵-۱۹۸۰/)     ۴۶

(۸)         موطا امام مالک                //                 //                 //                          ۴۸

(۹)         طحاوی شریف               //                 //                 //                          ۴۶

(۱۰)        ابن ماجہ شریف:

حضرت مولانا ظہوراحمد صاحب دیوبندی قدس سرہ (۱۹۰۰-۱۹۶۳/)                                             ۴۷

(۱۱)         موطا امام محمد:

حضرت مولانا محمدجلیل صاحب کیرانوی قدس سرہ (متوفی ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸/)                                    ۴۶

تدریسی سفر:

    تدریسی خدمات کا آغاز حضرت الاستاذ قدس سرہ نے مدرسہ حسینیہ گریڈیہہ (جھارکھنڈ) سے فرمایا، پھر وطن کے قریب مدرسہ مطلع العلوم بنارس میں کئی سال ابتدائی اور متوسط کتابیں پڑھائیں، اسی ابتدائی دور کے متعدد با فیض شاگردوں میں نمایاں نام ہے حضرت الاستاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کا پھر مطلع العلوم بنارس کے بعد اپنے علاقے کے مشہور ومعروف ادارے دارالعلوم مئو میں علم کی شمعیں اور قندیلیں خوب خوب روشن فرمائیں، دارالعلوم مئو میں حضرت الاستاذ قدس سرہ نے صدرالمدرسین کی حیثیت سے بخاری شریف کے ساتھ تفسیر وفقہ وغیرہ مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ بڑے عرصے تک فتویٰ نویسی کی خدمات بھی انجام دیں؛ لیکن حدیثِ رسول … کے اس قلندر صفت عاشق کے لیے فیصلہٴ خداوندی ازہرہند دارالعلوم دیوبند کے لیے ہوگیا اور صدسالہ اجلاس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں حالات ناگفتہ بہ ہوئے۔ پھر دارالعلوم دیوبند کی نئی انتظامیہ نے اساتذئہ کرام کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضرت الاستاذ قدس سرہ کو دارالعلوم دیوبند میں بخاری شریف کی تدریس کے لیے مقرر فرمایا، لہٰذا ۱۹۸۲/ سے حضرت الاستاذ قدس سرہ مسلسل بخاری شریف جلد ثانی پڑھاتے رہے ساتھ میں ہدایہ، مشکوٰة شریف اور الاشباہ والنظائر وغیرہ کے اسباق بھی زیر درس رہے۔

اوصاف وکمالات:

حضرت الاستاذ قدس سرہ کو بارگاہِ ایزدی سے بہت کچھ نوازاگیا تھا جہاں حضرت الاستاذ قدس سرہ علم کا دریائے ناپیدا کنار تھے وہیں حضرت الاستاذ قدس سرہ عبادت وریاضت، تقویٰ اور طہارت، خلوص وللہیت میں اپنی مثال آپ تھے، حضرت الاستاذ قدس سرہ نہایت صاف گو اور قناعت پسند ایک کامل انسان تھے، صبر ورضا، توکل وانابت، راست بازی اور صفائی معاملات کے نہایت پابند تھے۔ حضرت الاستاذ قدس سرہ کو اپنے عوارض کی کثرت کی وجہ سے کچھ مزاج میں ترشی پیدا ہوگئی تھی؛ لیکن صفائی معاملات کا اس قدر غلبہ تھا کہ فوراً متوجہ ہوتے، لہٰذا کبھی کسی شاگرد یا خادم کو سخت وسُست کہا تو فوراً معافی چاہتے تھے، گھر آنے والوں سے شروع میں سخت لہجے میں اگر بات فرمائی تو پھر ضیافت میں نہایت نرمی اور پیار سے اور اصرار کرکے کھلاتے پلاتے تھے، درس گاہ میں اگر ڈانٹ ڈپٹ سے پیش آتے تو بعد میں گھر پر لجاجت سے پیش آتے تھے، کثرتِ عوارض، کثرتِ اولاد اور کثرت اسفار ہرسہ میں مبتلا تھے، جب کہ یہ تینوں مزاج کی کڑواہٹ کا سبب بن جاتی ہیں، لہٰذا ہمارے حضرت الاستاذ قدس سرہ کا کمال یہی تھا کہ کڑواہٹ کی ضد بھی رکھتے تھے فوراً نہایت نرم اورشیریں ہوجایا کرتے تھے (اللہ تعالیٰ حضرت کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائے، آمین!)

بیعت وارشاد:

رجوع الی اللہ اور انابت حضراتِ علماء کرام کا خاصہ ہے ارشاد باری ہے ”إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء“ (سورة الفاطر:۲۸) کہ خوفِ خدا اور خشیتِ خداوندی سے متصف صرف علم والے ہی ہوتے ہیں، لہٰذا بڑے عالم کی پہچان یہی ہے کہ جس میں خوف وخشیت جتنا زیادہ ہو وہ اتنا ہی بڑا عالم ہے، پس حضرت الاستاذ قدس سرہ میں بھی اللہ پاک پروردگار نے اپنی خشیت کی خاصی مقدار عطا فرمائی تھی، اسی لیے فراغت کے بعد جلد ہی حضرت الاستاذ قدس سرہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ کی طرف متوجہ ہوئے اور باضابطہ بیعت ہوکر قلب کی اصلاح فرماتے رہے، باقاعدگی سے رمضان شریف میں حضرت شیخ کے یہاں اعتکاف فرماتے تھے حضرت شیخ الحدیث کے وصال کے بعد جانشین محی السنہ حضرت حکیم کلیم اللہ صاحب علی گڈھی دامت برکاتہم کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت سے بہرہ ور ہوئے۔

فکرِ آخرت:

حضرت الاستاذ قدس سرہ چوں کہ عوارض میں عرصے سے مبتلا تھے یہ سب چیزیں مذکرِ موت تھیں اور حضرت الاستاذ موت کو کثرت سے یاد کرتے تھے اور آخرت کا غم اور فکر ایک طرح سوار رہتا تھا، وصال سے تقریباً ہفتہ یا عشرہ قبل راقم السطور کا ملاقات کے لیے جانا ہوا تو پہلے فرمایا کہ کچھ نہیں ہے کیا ہوگا اور اشعار پڑھنے لگے پھر فریدالدین عطار کا پندنامہ اٹھایا جو قریب میں رکھا ہوا تھا اور فرمایاکہ پندنامہ پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر اس میں سے ابتداءً حمد وثناکے اشعار پڑھتے رہے، پھر مناجات کے اشعار کو مزے لے لے کر پڑھتے رہے ایک حالت طاری تھی اور عصر کے بعد کی مجلس میں آخرت ہی پر توجہ رہی (اللہ تعالیٰ آخرت ہی کو خوب سے خوب تر بنادے)

پس ماندگان:

حضرت الاستاذ قدس سرہ نے تین شادیاں یکے بعد دیگرے فرمائی تھیں۔ پہلی زوجہ سے حضرت کے ایک صاحبزادے اور ایک صاحب زادی ہیں، دوسری اہلیہ محترمہ سے کوئی اولاد نہیں ہے اور تیسری زوجہ سے جو بقیدحیات ہیں چھ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہیں۔ ماشاء اللہ سب باحیات ہیں، اللہ حضرت الاستاذ قدس سرہ کے پورے خانوادے کو دارین کی نعمتوں اور سعادتوں سے نوازے، آمین!

حضرت الاستاذ قدس سرہ اور سفرِ آخرت:

حضرت الاستاذ قدس سرہ ہرسال ختم بخاری شریف پر دعا کے شروع میں دارالعلوم کی تمام لائٹیں بند کرانے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں جب شعر پڑھتے تھے اور طلبہ کی چیخیں نکل جاتی تھیں، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید اب بس جدائی ہورہی ہے اور وہ شعر اب بار بار یاد آرہا ہے۔

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن  سر کا ؤ  مر ی  بے   ز  با  نی  د  یکھتے   جا  ؤ

لیکن جب واقعی آخری دیدار کے لیے دارالحدیث میں حضرت کا جنازہ رکھا گیا تو پھر وہی کیفیت محسوس ہو بلکہ حقیقت میں شعر کا مصداق حضرت الاستاذ قدس سرہ کی یہ حالت تھی جس کو ایک عرصے سے حضرت طلبہ عزیز سے بیان فرماتے تھے۔

لیکن ہم تو یہی کہیں گے:

                       آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

                       گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا     (انشاء اللہ تعالیٰ)

اللہ پاک پروردگار حضرت الاستاذ قدس سرہ کی بال بال مغفرت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

 

$$$

 

--------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء